فریتھنکنگ یا آزادیِ فکر کیا ہے؟ - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Friday, September 21, 2018

فریتھنکنگ یا آزادیِ فکر کیا ہے؟


فریتھنکنگ یا آزادیِ فکر کیا ہے؟

ہمارے گروپ میں آنے والے بہت سے لوگ لفظ فریتھنکر کا مطلب نہیں سمجھتے، ان کی نظر میں فرتھنکر سے مراد وہ شخص ہے جو ہر قسم کی بات کو کرنا آزادی سمجھتا ہو، مگر فرتھنکر کے مطلب اس سے کُلی طور پر مختلف ہیں۔

دور جدید میں فرتھنکر کی تعریف ایک ایسے شخص کی ہے، جو کسی بھی دعوے کی حقیقت کو منطق، عقلیت اور تجربیت کی بنیاد پر پرکھنے کے بعد ہی قبول کرے، جبکہ وہ عقیدے، الہام، اور روایت پسندی کی بنیاد پر کسی بھی دعوے کو حقیقی تسلم نہ کرے۔


یعنی فرتھنکر یا آزادیِ فکر پر یقین رکھنے والے لوگ منطق وہ عقلیت کو ترجیح دیتے ہیں، وہ سائنسی اصولِ تجربیت کو حقیقی مانتے ہیں۔ اور انہی تینوں اصولوں کے مطابق کسی بھی دعوے کی پرکھ اور آزمائش کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ حقیقت کی کڑی جانچ اور پرکھ پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ سچائی کے نظریہ میں یقین رکھتے ہیں۔

الہام ایک ایسا لفظ ہے، جس کو مذہبی اور روحانی حلقوں میں عزت و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، مگر الہام کی عقلیت، منطق و تجربیت کی بنیاد پر پرکھ نہیں کی گئی، اور نہ ہی موصولینِ وحی نے الہام پر عقلی، منطقی و تجربیاتی ثبوت فراہم کئے ہیں۔ انبیاء و مشائخ الہام، وحی اور خدا سے باتیں کرنے کے دعوے کرتے ہیں، مگر یہ تمام دعوے زمانہ قدیم میں ہی کئے گئے ہیں۔ دورِ قدیم میں ان اشخاص کی دماغی صحت اور دنیاوی مقاصد کو پرکھنے کا کوئی مروجہ معیار و طریقہ موجود نہیں تھا۔ اس لئے ہمیں موجودہ وقت میں موجود نبوت کے دعویداروں اور پیروں فقیروں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے، اور ان لوگوں پر بخوبی تحقیق و جرح کرنے سے دو ہی نتائج کُھل کر سامنے آتے ہیں۔ اول اس طرح کے اشخاص دماغی و نفسیاتی مسائل کا شکار پائے گئے ہیں، دوئم ان کے الہامی و روحانی دعویٰ جات کے پیچھے مادی عوامل کارفرما ہیں، یعنی یہ شعبدہ بازی کے ذریعے عوام الناس کو بے وقوف بنا کر اپنا گزر و بسر کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں زمانہ قدیم میں پائے جانے والے انبیاء و مشائخ بھی انہی مسائل و عوامل کا شکار رہے ہیں۔ اس لئے الہام مکمل طور پر رد شدہ ہے، اور موجودہ دور کی منطق و سائنس کے مطابق اس کی حیثیت دماغی بیماری اور شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔

الہام کی بنیاد پر عقیدے بنائے جاتے ہیں۔ اور عقائد کو سختی سے کاربند کیا جاتا ہے، ان پر ایمان کی مانگ کی جاتی ہے۔ ایمان تشکیک کا متضاد ہے، جبکہ تشکیک حقیقت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے، تشکیک پرکھ، کھوج اور جرح کی اساس ہے۔ ایمان تشکیک کو کمزوری اور اندھی تقلید کو طاقت تصور کرنے پر اثرار کرتا ہے۔ ایسی صورت میں جب کسی چیز پر ایمان یا عقیدہ رکھ لیا جائے تو اس پر جرح و کھوج کی راہ بند ہو جاتی ہے، اور جس کو حقیقت تصور کیا جاتا ہے وہ اصل حقیقت سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ اس لئے عقیدہ عقل و خرد کا دشمن ہے، یہ انسانی سوچ پر بٹہ لگانے کا کام کرتا ہے، یہ تشکیک اور تحقیق کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور مائل بہ عقیدے افراد حقیقت کو پرکھنے کی اہلیت کھو بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ وہ تصورات اور حقائق کے درمیان تمیز کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

روایت پسندی الہام اور عقیدے سے جڑی ہوئی ہے، روایات پسندی دراصل قدیمیت کو جدیدیت پر ترجیح دینے کا نام ہے۔ مذاہب ہمیشہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ خالق کائنات نے انسانِ اول کو جہاں کے متعلق مکمل ترین معلومات فراہم کیں تھیں، اس اثنا میں آدم علیہ السلام کو جنت میں جانوروں سے باتیں کرنا اور خدا سے باتیں کرنا یاد تھا۔ انہیں تخلیقِ جہاں کی کہانی سب سے بہتر طور پر معلوم تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ سینہ بسینہ منتقل ہوتا یہ علم انسان بھول گئے، اس لئے انسان خدا کو بھی بھول گئے۔ مسیحت و یہودیت میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ روحِ خدا آدم کے ساتھ تھی، جس کے باعث ان کی عمر انتہائی طویل تھی، وہ انتہائی دانا اور طاقتور تھے۔ اسی طرح یونانی بھی یہی سمجھتے تھے کہ قدیم ترین انسان علم کے اعلی مرتبہ پر فائز تھا کیونکہ وہ دیوتاؤں کے ساتھ چلا تھا، وہ ان سے ملا تھا۔ مگر یہ سبھی دیو مالائی قصے اور کہانیاں ہیں۔ ہم آج بخوبی جانتے ہیں کہ قدیم انسان کا علم صرف اور صرف کہانیوں اور کم علمی کی بنیاد پر پیدا ہوئی قیاس آرائیوں پر مبنی تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جدید دور میں علم اور علمیت کے مروجہ قوانین و طریقے موجود ہیں جن کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جدید انسان وقت قدیم سے متعلق قدیم انسان سے کہیں زیادہ علم رکھتا ہے۔ روایات اور کہانیاں قدیم انسان کی ذہنی حالت اور علمی قابلیت کی جانب اشارے ضرور کرتی ہیں مگر یہ حقیقت کو بیان کرنے کے بجائے اخلاقی نتیجے پر زور دیتی تھیں۔

حقیقت تک رسائی عقل، تجربیت اور منطق ہی سے ممکن ہے۔ مگر بعض اوقات انسان حقیقت تک رسائی حاصل پھر بھی نہیں کر سکتا ایسی صورت میں خوشفہمی کے بجائے اپنی کم علمی کو سمجھ لینے میں بھلائی سمجھنے اور تحقیق جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی سوال کا جواب منطق و سائنس سے خاطر خواہ طور پر نہیں مل رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا جواب الہام اور عقیدے سے حاصل ہو سکتا ہے، روایتیں اس امر میں رہنمائی نہیں کر سکتیں۔ بلکہ یہ تینوں انسان کو گمراہ کر کے خوشفہم نتائج دیتے ہیں اور انسان کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ غلطفہمی ہر قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے، ہر قسم کی نفرتیں، نرگسیت اور جہالت غلطفہی سے جنم لیتی ہے۔ غلطفہمیوں کو حقیقت کے طور پر باور عقیدے، الہام اور روایت ہی سے کروایا جا سکتا ہے۔

غالب کمال

Courtesy Pakistani Free Thinkers

No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();