جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے پیچھے چھپی صدر ٹرمپ کی خوفناک سازش بے نقاب ۔۔۔۔۔ بی بی سی کی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Wednesday, January 8, 2020

جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے پیچھے چھپی صدر ٹرمپ کی خوفناک سازش بے نقاب ۔۔۔۔۔ بی بی سی کی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات



امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا اثر امریکہ صدارتی انتخابی سیاست پر پڑنا ناگزیر ہے۔ آج کل ہر چیز صدارتی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ ایک بہت بڑی خبر تھی۔ امریکہ اور ایران میں بڑھتی ہوئی
نامور صحافی انتھونی زرکر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کشیدگی اور اس کے دور رس اثرات کا انحصار اس بات پر ہے کہ ایران کے جوابی وار کی نوعیت اور اس کے بعد شروع ہونے والی جنگ کی شدت کیا ہو گی۔اگر اس کا نتیجہ امریکی فوج کے عراق سے انخلا پر نکلا تو پوری سیاسی بساط پلٹ جائے گی اور سخت گیر موقف کے لوگ خوب شور مچائیں گے اور عدم مداخلت پر یقین رکھنے والے خوشی منائیں گے۔ مستقبل قریب میں اس کے اثرات ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں شروع ہونے والے ڈیموکریٹ پارٹی کے پرائمری انتخابات اور اس سال نومبر میں صدارتی انتخابات پر پہلے ہی پڑتے نظر آ رہے ہیں۔

روایتی طور پر امریکہ میں جس صدر کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر کسی بحران کا سامنا ہو اس کی وقتی طور پر عوامی حمایت میں یک دم اضافہ ہو جاتا ہے۔وہ ملکی پرچم اٹھا لیتے ہیں جس طرح 1991 میں خلیج کی پہلی جنگ کے دوران جارج ایچ ڈبلیو بش کی مقبولیت بڑھ گئی تھی۔ اس کے بعد گیارہ سمتبر سنہ 2001 میں امریکہ پر حملوں اور اس کے جواب میں افغانستان پر امریکی فوج کشی کی وجہ سے جارج ڈبلیو بش کی مقبولیت آسمان کو چھونے لگی تھی۔یہ فوجی لحاظ سے بہت بڑی کارروائیاں تھیں۔ 
لیکن جب صورت حال معمول پر آتی ہے تو سیاسی فائدے کا اندازہ لگانا کم از کم پولنگ کی حد تک مشکل ہو گیا۔سنہ 2011 میں لیبیا پر فضائی حملے سے براک اوباما کی مقبولیت کے گراف میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔



صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شامی فوج کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں جب شامی ہوائی اڈوں پر بمباری کا حکم دیا تو ان کی مقبولیت میں معمولی سا اضافہ دیکھنے میں آیا۔اب یہ لگاتا ہے کہ ایک ایسے صدر، جس کی مقبولیت جو اس کے تمام دورے صدرات میں مستحکم رہی ہے یہ اضافہ ایک معمولی سے اچھال کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد کرائے گئے عوامی سروے سے ظاہر ہوا کہ اس نازک صورت حال میں ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں پر رائے عامہ اتنی ہی منقسم ہے جتنی کہ وہ ملکی سیاست کے دوسرے مسائل پر بٹی ہوئی ہے۔کچھ لوگ ٹرمپ کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں جب کہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں لوگ اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ صدر کا رویہ جتنا محتاط ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہے۔
اگر حیران کن عسکری فتح مل گئی تو اور بات ہے، بصورت دیگر یا ایک طویل خون ریز جنگ کی صورت میں صدر ٹرمپ کے دورۂ صدارت کو جب دیکھا جائے گا تو اس کا نتیجہ زیادہ مختلف نہیں ہو گا۔ ٹرمپ کو ہو سکتا ہے آخر میں اس کا فائدہ ہو جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے متنازعہ اور فتنہ انگیز اقدامات سے اٹھاتے آئے ہیں۔


 ہفٹنگٹن پوسٹ کے سروے کے مطابق 83 فیصد رپبلکن جماعت کے ارکان نے جنرل سلیمانی پر حملے کی حمایت کی۔ صدر کے حامیوں کا کہنا تھا کہ جنرل سلیمانی پر حملے سے صدر کے سیاسی مخالفین کو ایک مرتبہ پھر شور مچانے کا موقع مل جائے گا۔ سوشل میڈیا پر ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت



پر تشویش ظاہر کرنے والوں کے لیے لکھا ‘ سوری آپ کو نقصان ہوا۔’ ‘دی بیبیلون بی’ نامی ایک دائیں بازو کی ویب سائٹ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے ارکان جنرل سلیمانی کی ہلاکت پر امریکی پرچم کو سرنگوں رکھنا چاہتے ہیں۔مشرق وسطی کی ڈرامائی صورت حال سے شاید صدر کو اپنے مواخذے اور سینیٹ میں مقدمے سے قوم کی توجہ ہٹانے میں مدد ملے۔ پیر کی صبح کو صدر کی طرف سے کیے جانے والے ٹوئٹر پیغامات میں یہ بالکل واضح تھا کہ صدر کے دماغ پر یہ بات چھائی ہوئی ہے۔ایک ٹوئٹر پیغام میں انھوں نے کہا کہ ‘ہماری تاریخ کے اس اہم موقع پرجب میں اس قدر مصروف ہوں مجھے اس سیاسی ڈرامے پر وقت ضائع کرنا پڑا ہے۔

 یہ بہت افسوس ناک ہے۔’ڈیموکریٹ پارٹی کی صفوں میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت جنگ مخالف عناصر کو متحرک کر سکتی ہے جو عراق کی جنگ کے بعد سے اب تک خاموش بیٹھے تھے۔برنی سینڈرز جو ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں انھوں نے فوراً اپنے امن پسند ہونے کا ثبوت دیا۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا ‘میں ویتنام جنگ کے بارے میں درست تھا۔ میں عراق جنگ کے بارے میں درست تھا۔ میں ایران سے جنگ روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کروں گا۔
 اس ٹوئٹر پیغام کے ساتھ انھوں نے ایک ویڈیو بھی جاری کی اور انھوں نے لکھا ‘میں معذرت خواہ نہیں ہوں۔’صدراتی نامزدگی کی ایک اور امیدوار تلسی گیبرڈ نے ‘حکومتیں الٹنے کی جنگوں’ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی کی ہلاکت اعلان جنگ ہے اور امریکی آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔
ان بیانات کے برعکس دوسرے ڈیموکریٹ امیدواروں نے امریکی افواج کے خلاف اپنی بغل بچہ تنظیموں کے ذریعے سلیمانی کی کارروائیوں کی مذمت کی اور ان پر حملے کی حکمت پر بھی تنقید کی۔ ایک اور امیدوار پیٹ بوٹیجج نے کہا کہ ‘اس فیصلے پر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ یہ کیسے لیا گیا اور کیا ہم اس کے نتائج کے لیے تیار ہیں۔

’ الزبتھ وارن نے سلیمانی کو ایک قاتل قرار دیا۔ ایمی کولبچار نے خطے میں تعینات امریکی فوجیوں کے تحفظ کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔دریں اثنا نیویارک کے سابق میئر مائیکل بلومبرگ نے سینڈرز کو نشانہ بناتے ہوئے کہا یہ شرمناک ہے کہ ورمنٹ سے منتخب ہونے والے سینیٹر اس کو قتل قرار دے رہے۔ بلومبرگ نے مزید کہا کہ یہ وہ شخص تھا جس کے ہاتھ امریکی خون سے رنگے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا وہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس کا یہ خیال ہے کہ ہم نے کچھ غلط کیا ہے۔
پارٹی کے ترقی پسند اور معتدل دھڑوں کے درمیان اختلاف اس وقت بار بار سامنے آ رہے تھے جب صحت عامہ کے موضوع پر بحت جاری تھی۔
 اگر ایران کا معاملہ بڑھتا ہے تو پھر فوجی قوت کے استعمال پر بھی رائے اتنی ہی منقسم ہو سکتی ہے۔جنرل سلیمانی کے قتل پر ہفٹنگٹن پوسٹ کے جائزے میں جو بائڈن کے لیے اچھی خبر یہ تھی کہ 62 فیصد ڈیموکریٹ پارٹی کے حامی اور ان کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ووٹروں کا کہنا ہے ایران کے معاملے پر انھیں ان پر اعتماد ہے۔ سینڈرز اور وانر کے مقابلے میں وہ کہیں آگے تھے جن پر 47 فیصد لوگوں نے اعتماد کا اظہار کیا۔خارجہ امور میں جو بائڈن کے تجربے کی روشنی میں جس میں آٹھ سال نائب صدر کے طور پر اور سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے طویل عرصے تک صدر رہنے کی وجہ سے اس طرح کا رد عمل قطعی طور پر حیران کن نہیں ہے۔
اس طرح کا پس منظر کوئی بہت اچھی بات بھی نہیں ہے کیونکہ مشرق وسطی میں بحران ایک مرتبہ پھر لوگوں کو جو بائڈن کی طرف سے عراق جنگ کی حمایت یاد دلا دے گا جسے وہ بعد میں بھی دبے دبے الفاظ میں دھہراتے رہے ہیں۔ہفتے کو امریکی ریاست آئیوا میں ایک ووٹر کی طرف سے سوال پر جو بائیڈن نے کہا کہ انھوں نے عراق جنگ کی توثیق کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن صدر بش کی طرف سے اس سارے معاملے کو جس طرح چلایا گیا اس کی انھوں نے پہلے دن سے مخالفت کی تھی۔بائڈن نے جنگ شروع ہونے اور اس کے بعد اس کی حمایت کی تھی لیکن پہلی مرتبہ سنہ 2005 میں اپنے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
جس طرح دسمبر میں صدر کے مواخذے کی کشمکش، دیگر اہم خبروں کے سیلاب میں اُس طرح کی توجہ حاصل نہیں کر سکی تھی جس طرح کی توجہ ڈیموکریٹ پارٹی کے ارکان اس طرف دلانا چاہتے تھے اور اب جب صدر پر سینیٹ میں مقدمہ چلایا جانے والا ہے ایران کی خبر کو اس پر فوقیت حاصل رہے گی۔

No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();