روشن خیالی کیا ہے؟ - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Saturday, February 24, 2018

روشن خیالی کیا ہے؟


اگر ماضی میں مسلمان ترقی یافتہ اور سرفراز تھے اور آج ان کے پاس یہ مقام 
نہیں ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس زمانے میں کیا وجوہ تھیں کہ ہم دنیا میں سب سے آگے تھے اور آج کیا اسباب ہیں کہ ہم سب سے پیچھے ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ گزرے دور میں روشن خیالی ہی ہماری ترقی کا سبب تھی اور آج روشن خیالی ہی کی عدم موجودگی ہمارے زوال کی بنیادی وجہ ہے۔
روشن خیالی کی اصطلاح ہمارے ہاں سیاسی مفہوم میں بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ تاہم میں روشن خیالی کو سیاسی نعرے کے حوالے سے نہیں دیکھتا۔ روشن خیالی کی تحریک ہر دور میں موجود رہی ہے۔ وہی معاشرے آگے بڑھتے ہیں جو روشن خیال ہوتے ہیں اور روشن خیالی کو اپناتے ہیں۔
اگر آپ روشن خیالی کو سیاسی حالات سے الگ کر کے دیکھیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی و سرفرازی کے لیے اس کا روشن خیال ہونا ضروری ہے۔ جو معاشرے روشن خیال نہیں ہوتے وہ ختم ہو جاتے ہیں، مٹ جاتے ہیں اور ان کا وہی حشر ہوتا ہے جو دنیا میں تمام مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔
روشن خیالی وقت کی رفتار کو پہچاننے اور خود کو اس کے مطابق چلنے کے قابل بنانے کا نام ہے۔
دنیا میں روشن خیالی کی بے شمار تحریکیں چلیں۔ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے وہ تمام روشن خیال تھے۔ انہوں نے اپنے وقت کے معاشروں میں پائی جانے والی خرابیوں اور برائیوں کو دور کرنے کی کوششیں کیں جو اُن حالات میں روشن خیالی کی تحریکیں تھیں۔
یورپ میں روشن خیالی کی بہت سی تحریکیں سامنے آئیں جن میں سب سے بڑی تحریک نشاۃ ثانیہ کہلاتی ہے۔ اس تحریک کے بعد مغرب تمام دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔
نشاۃ ثانیہ کی تحریک 15ویں اور 16ویں صدی میں اس وقت شروع ہوئی جب علم آدمی تک پہنچنا شروع ہوا تھا۔ عام آدمی کی علم تک رسائی چھاپہ خانے کی ایجاد کی بدولت ممکن ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چھاپہ خانے سے پہلے نئے خیالات، تصورات اور فلسفے زبانی لوگوں تک پہنچتے تھے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر حکمران نئے خیالات اور نئے فلسفے کا مخالف ہوتا ہے کیونکہ یہ خیالات اور فلسفے اقتدار کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔
 
بیرون ملک سے بڑے بڑے بادشاہوں نے ہندوستان پر حملے کیے اور یہاں سالہا سال حکومت کی۔ آج ہمیں جا بجا ان حکمرانوں کی یادگاریں دکھائی دیتی ہیں جن میں قلعے، مساجد، مندر، مقبرے، باغات وغیرہ شامل ہیں۔ مگر ہمیں ان بادشاہوں کے بنائے تعلیمی اداروں کا کوئی نشانہ نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم پھیلانا ریاست کی ترجیح نہیں تھی
جب علم زبانی طور سے لوگوں تک پہنچایا جاتا تھا تو حکمرانوں کے لیے اسے روکنا بہت آسان تھا۔ حکمران ایسے شخص کو جیل میں ڈال کر بھول جاتے تھے۔ بہت سے روشن خیال لوگوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
سقراط کو اسی لیے موت کی سزا دی گئی تھی کہ اس وقت کے حکمرانوں کا کہنا تھا کہ یہ نئی نسل کو گمراہ کر رہا ہے۔ سقراط نئی نسل کو نئے خیالات سے روشناس کرا رہا تھا جن کے بارے میں حکمران سمجھتے تھے کہ ایسے خیالات ان کے اقتدار کے لیے خطرہ ہوں گے۔
جب چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو یورپ میں چرچ اور بادشاہ نے چھپائی کو حکومت کے خلاف بغاوت قرار دے دیا جس کی سزا موت مقرر کی گئی تھی۔ 1664 تک یورپ میں کتابیں چھاپنے کے 'جرم' میں موت کی سزائیں دی جاتی رہیں۔ برطانیہ میں ایسی آخری سزا 1663 میں دی گئی تھی۔ اس کتاب پر مصنف کا نام نہیں تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ بادشاہ اپنے اعمال کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے اور اگر وہ جوابدہی سے انکار کرے تو عوام کو حق حاصل ہے کہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھائیں اور بغاوت کر دیں۔
اس کتاب کے پبلشر سے مصنف کا نام بتانے کو کہا گیا اور انکار پر اسے موت کی سزا دی گئی۔ اس پبلشر کا نام جان ٹوائن تھا اور اسے فل بینچ نے متفقہ طور پر موت کی سزا دی جس پر عمل ہوا۔
لوگ سزائیں بھگتتے رہے اور نئی فکر کو عام آدمی تک پہنچاتے رہے۔ اس سے پہلے علم عام آدمی کے لیے نہیں تھا۔ بادشاہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے محلات میں اتالیق رکھتے تھے۔
قدیم ہندوستان میں برہمن علم حاصل کرتا تھا اور وہی لوگوں کو علمی باتیں بتانے کا مجاز تھا۔ معاشرہ اس کی روٹی کپڑے کا بندوبست کیا کرتا تھا۔ برہمن کے علاوہ دیگر طبقات کے لیے علم ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا۔
بیرون ملک سے بڑے بڑے بادشاہوں نے ہندوستان پر حملے کیے اور یہاں سالہا سال حکومت کی۔ آج ہمیں جا بجا ان حکمرانوں کی یادگاریں دکھائی دیتی ہیں جن میں قلعے، مساجد، مندر، مقبرے، باغات وغیرہ شامل ہیں۔ مگر ہمیں ان بادشاہوں کے بنائے ہوئے سکول یا ہسپتال کہیں نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم پھیلانا ریاست کی ذمہ داری نہیں سمجھی گئی تھی۔

یورپ میں سخت ترین سزاؤں کے باوجود جب کتاب نے مقبولیت حاصل کی تو علم آدمی تک پہنچا۔ اس تحریک کو ہم نشاۃ ثانیہ کے نام سے جانتے ہیں۔
اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے بادشاہ کے اختیارات کو چیلنج کر دیا۔ اس تحریک نے صنعتی انقلاب کو جنم دیا جس سے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں میرٹ اور ٹیلنٹ کی قدر تھی۔
اس سے پہلے گزرے ہزار سال میں مغربی معاشرے کا انحصار زراعت پر تھا اور زراعت کا دارومدار قدرتی عوامل پر ہوتا تھا۔ اگر بارش نہ ہو تو ہم دعا مانگتے ہیں۔ ہماری طرح ہندو بھی اپنے دیوی دیوتاؤں کے آگے پوجا پاٹھ کر کے بارش کی دعا مانگتے ہیں۔ ہم بارش کروا نہیں سکتے، ہم صرف دعا مانگ سکتے ہیں اور دعا کے لیے کسی میرٹ اور ٹیلنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اُس معاشرے میں میرٹ اور ٹیلنٹ کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔
(دو اقساط پر مشتمل اس مضمون کا یہ پہلا حصہ ہے)


                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                               
      ڈاکٹر مہدی حسن پاکستان کے نمایاں ترین 
صحافتی مورخ، ابلاغ عامہ کے استاد اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ تاریخ و صحافت پر ان کی کتابیں صحافت و سیاسیات کے شعبے میں حوالے کا درجہ رکھتی ہیں

سجاگ

No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();