عدم رواداری کا جہنم - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Monday, February 26, 2018

عدم رواداری کا جہنم

رواداری کا بنیادی مفہوم، جائز اور مباح سمجھنا اور تعصب سے بری ہونا ہے۔ چیزیں، باتیں، خیالات، نظریات، عقائد ایک خاص سیاق ہی میں جائز اور مباح ہوتے ہیں۔یعنی کچھ لوگوں کے لیے خاص باتیں، خاص مواقع پر ہی جائز اور مباح ہوتی ہیں اور کچھ دوسرے لوگوں کے لیے وہی باتیں ناجائز اور غلط  تک ہوسکتی ہیں۔ 
Image result for hell of intolerance



ایک آدمی کا مسلک، دوسرے کے نزدیک بے بنیاد ہوسکتا ہے، کسی کا رہنے سہنے کا طرز، دوسرے کی نظر میں گم راہ کن ہوسکتا ہے، ایک کے سماجی، ادبی، جنسی نظریات دوسرے کی نظر میں سخت مشتبہ ہوسکتے ہیں۔
یعنی اگر ایک آدمی کو کسی خاص مسلک، خاص نظریے، خاص طرز رہن سہن کا انتخاب کرنے اور اختیار کرنے کا حق ہے تو دوسروں کو ان سب کے سلسلے میں رائے قائم  اور رائے کے اظہار کا بھی حق ہے۔
اگر ایک سماج کے سب لوگ ایک دوسرے کے انتخاب اور حقِ رائے سازی و اظہار کو تسلیم کرتے ہوں اور کسی انتخاب یا رائے سے سخت اختلاف کے باوجود، بے تعصبی کا مظاہر ہ کرسکتے ہوں، یعنی اپنے انتخاب اور دوسروں کی رائے، یا دوسروں کے انتخاب اور اپنی رائے کومسلط کرنے سے گریز کرتے ہوں تو وہ سماج روادار کہلائے گا۔
لفظی جھگڑوں ہی نہیں، حقیقی تشدد وسفاکانہ بربریت کا آغاز انتخاب اور اس پر رائے قائم کرنے کے دوران میں ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کوئی سماج یا تو روادار ہوتا ہے یا عدم روادار ومتشدد۔ ان دونوں کے بیچ لاتعلقی و بیگانگی ہوسکتی ہے، جو ایک اور قسم کی عدم رواداری ہے۔
یہ بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے اگر ہم اس گہرے تعلق کو سمجھ لیں جو خاص طرح کی زندگی اور اس کے سلسلے میں رائے قائم کرنے میں ہے۔
ایک شخص کا انتخاب، دوسرے شخص پر اثرا نداز ہوتا ہے، ایک گروہ کا طرز زندگی اور مسلک و نظریہ دوسرے گروہ کو متاثر کرتا ہے۔
اس اثر سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے لاتعلق وبیگانہ ہوجائیں اور اپنے بیچ آہنی دیوار کھڑی کرلیں۔ یہ آہنی دیوار اسی وقت کھڑی کی جاسکتی ہے جب ایک ایسا نظریہ قائم کرلیا جائے جو دوسروں کو انسانی دنیا سے باہر کی کوئی غیر ضروری اور مردہ شے تصور کرے۔
یہ ایک طرح کی انسان کشی ہے۔ گویا ہمارے ارد گرد جو کچھ ہورہا ہے اور اس کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے، یعنی جسے لوگ حقیقی یا تصوراتی طور پر اپنے لیے منتخب کررہے ہیں، ہم اس کے بارے میں ایک یا دوسری رائے قائم کرنے پر مجبور ہیں۔
رائے قائم کرنے کے ذریعے ہم دو کام کرتے ہیں۔
اوّل: اس بات کا عملی ثبوت دیتے ہیں کہ ہم دوسروں سے وابستہ ہیں۔
دوم: ان سے وابستگی کو ایک خالی خولی دعوے تک محدود رکھنے کے بجائے اسے بامعنی بناتے ہیں۔
ہم اس یقین کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کے معنی دوسروں کی زندگیوں میں شرکت سے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر یہی وہ مقام ہے جہاں ایک بنیادی حقیقت کو فراموش کرنے کا خطرہ منڈلاتا ہے اور پھر ایک ایسی کہانی کا آغاز ہوتا ہے جس کی المناکی کا تجربہ ہم اس وقت کررہے ہیں۔
اگر ہم دوسروں کی زندگیوں میں شرکت کے ذریعے اپنی زندگی کو بامعنی بنانے تک محدود رہیں تو یہ رواداری ہے اور ایک سماجی قدر ہی نہیں، جینے کا فلسفہ بھی ہے۔
لیکن اگر ہم اپنی زندگی کو بامعنی بنانے کا خیال پس پشت ڈال کر اس یقین کے حامل ہوجائیں کہ ہم ایک مقدس و مطلق حقیقت کے علم بردار ہیں، ہماری دسترس میں ایسا معنی ہے جسے لوگوں کی حقیقی زندگی کے ساتھ تعلق میں نہیں اور یہ کسی ماورائی وسیلے سے اخذ کیا گیا ہے تو پھر ہم اس معنی کا تسلط اور نفاذ چاہنے لگتے ہیں۔
تب رواداری راستے کا پتھر لگتی ہے جسے بس ایک ٹھوکر سے ہٹا دیا جاتاہے۔ گویا تشدد کا آغاز مقدس معنی کے نفاذ کی خواہش کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
معنی کے تسلط اور نفاذ میں یقین رکھنے والا فرد یا گروہ، جماعت یا قوم دوسروں کی زندگی میں شرکت نہیں کرتی، بدترین مداخلت کرتی ہے۔
بدترین مداخلت کا مطلب، اس کی داخلی زندگی، اس کی فکری و تخلیقی زندگی کے حرم میں ایک خدائی اختیار کے ساتھ در آنا ہے۔
مذکورہ افراد یا گروہ، دوسروں کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنی زندگی کے خاص طرز، مسلک یا نظریے، یا طور طریقے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
یہ گروہ سرے سے’ انتخاب‘ پر یقین ہی نہیں رکھتے، وہ غیر مشروط فرماں برداری اور غیراستفہامیہ قسم کی اطاعت چاہتے ہیں۔
انتخاب کا مطلب ہے کہ آدمی کے سامنے ایک سے زیادہ چیزیں ہیں، یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کسی ایک کو منتخب کرلے اور باقیوں کو ردّ کردے۔
خود ردّ و انتخاب کا عمل حتمی نہیں، ایک وقت میں ردّ کی جانے والی شے، کسی دوسرے وقت میں منتخب کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک سے زیادہ چیزیں، زیادہ تر ذہنی اپچ ہیں، انھیں خلق یا دریافت کیا جاتاہے۔
جو شخص نظریات خلق کرتا ہے یا دریافت کرتا ہے وہ کسی ایک نظریے کو منتخب کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ لیکن ایک معنی کے نفاذ میں یقین رکھنے والوں کو تخلیق کی صلاحیت سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
ایک اور بات بھی توجہ طلب ہے کہ دوسروں کی زندگیوں میں شرکت کے ذریعے معنی اخذ کرنے والے، دوسروں کے ساتھ اس لیے بھی روادار ہوتے ہیں کہ وہ اس سرچشمے کو باقی رکھنا چاہتے ہیں، جو معنی کی تخلیق کا سرچشمہ ہے۔
لیکن جو دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کرتے ہیں، وہ معنی کی تخلیق میں اوّل تو یقین نہیں رکھتے، دوم وہ معنی کا سرچشمہ ہماری آپ کی زندگی سے کہیں باہر ایک اور دنیا میں دیکھتے ہیں، جسے ان کے یقین نے ’پیدا‘ کیا ہوتا ہے۔
معنی کے سرچشمے کو وراے دنیا میں دیکھنے کی بنا پر، ان کے لیے عام طور پر یہ ’فطری ‘ ہوتا ہے کہ وہ حقیقی کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی دنیا کو نظر انداز کریں یا اس پر غالب آجائیں۔
ثقافتی و لسانی تکثیریت کو نظرانداز کرنے کامطلب اس آہنی دیوار کو کھڑا کرنا ہے جس کا ذکر گزشتہ سطروں میں کیا گیا ہے یعنی انسان کشی۔
ثقافتی تکثیریت کو قبول کرلینے سے روادار ی پیدا ہوتی ہے اور اس میں شرکت کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ جب کہ ثقافتی تکثیریت سے انکارکا لازمی نتیجہ اس پر غلبے کی خواہش ہے۔ یہ خواہش آئیڈیالوجیائی اور متشددانہ دونوں صورتیں اختیار کرتی ہے۔
ویسے تو ہرآئیڈیالوجی اپنے اندر علمیاتی تشدد کے عناصر رکھتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے تضادات چھپاتی ہے۔
آئیڈیالوجی اپنی بقا کے لیے کم وبیش وہی طریقہ اختیار کرتی ہے جو انسانی ایغو اپنی بقا اورغلبے کے لیے کرتی ہے یعنی اپنی نفسی و عقلی توانائی کو اپنے احساس انفردایت کی بقا کے لیے اندھا دھند بروے کار لانا۔
دنیا میں انفرادی جھڑپیں اگر شخصی انا کی خاطر ہوتی ہیں تو قومی جنگیں قومی انا کی خاطر اور عالمی جنگیں آئیڈیالوجیائی انائی غلبے کی خاطر چھیڑی جاتی ہیں۔
Related image
غلبے کے ذریعے دنیا کو وحدانی (Monolithic) بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیا کے ثقافتی تنوع کو گلوبلائزیشن کی قوتوں اور مقدس معنی کی جنگ لڑنے والے دونوں سے خطرہ ہے۔ ایک کے پاس معاشی ایجنڈا ہے اوردوسرے کے پاس مقدس ایجنڈا۔
دونوں ایجنڈوں میں فرق یہ ہے کہ معاشی ایجنڈہ نسبتاً لچکدار ہوتا ہے، جس کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب معاشی مفاد کو خطرہ لاحق ہو(سرمایہ داریت کی ’کامیابی ‘کا ایک راز یہی لچک ہے) یعنی گلابلائزیشن، اپنے ثقافتی تنوع ختم کرنے کے معاشی ایجنڈے پر نظرثانی پر تیار رہتی ہے، جس کا کچھ اظہار گلوکالائزیشن یعنی عالمی و مقامیت کے امتزاج کی صورت میں ہوتا ہے۔
مقدس ایجنڈے میں عموماً لچک نہیں ہوتی، اس لیے کہ اس کا مفاد معاشی مفاد کی طرح ہماری حقیقی دنیا سے نہیں جڑا، بلکہ وہ اجر و سزا کے لیے دوسری دنیا سے رجوع کرتا ہے۔
اس میں لچک کا امکان صرف ایک صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب وہ ایک بنیادی مفروضے کو تسلیم کرلے کہ حقیقت تک رسائی، یا معنی ساز ی کے ذرائع ایک سے زیادہ ہیں اور وہ ذارئع بھی لوگوں کی زندگیوں کو بامعنی بناتے آئے ہیں جنھیں مقدس ایجنڈا سرے سے ذریعہء علم ہی تصور نہیں کرتا۔
صاف لفظوں میں وحی و الہام کے ساتھ، انسانی عقل بھی حقیقت تک پہنچ سکتی ہے اور معنی سازی کرسکتی ہے، نیز دنیا میں کثیر لوگوں کی تعداد ایسی ہے جو انسانی عقل کی رہنمائی میں ان تمام عظیم مقاصد کو حاصل کرنے میں یقین رکھتے ہیں، جن کے بغیر سماجی اور روحانی زندگی بنجر ہوجاتی ہے۔
جی ہاں! دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر کسی خاص مذہب میں اعتقاد رکھے، دانائی کے بل بوتے پر روحانی زندگی گزارتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو سرے سے روحانی زندگی پہ یقین ہی نہیں رکھتے مگر وہ سماجی زندگی میں باقاعدہ ذمہ داری کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔
یہ مفروضہ تسلیم کرنے کے بعد مقدس ایجنڈا، دوسروں کے معنی کے انتخاب کودوسروں کا حق تصور کرنے لگتا ہے اور اس لکیر کو عبور نہیں کرتا، جو رائے کے اظہار اور رائے کے نفاذ میں ہے۔
اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانے لگتی ہے کہ غلبے کی خواہش، خواہ کسی سبب سے ہو، اْس عفریت کی طرح ہے جس کے خون کا ہر قطرہ جوں ہی زمین پر گرتا تو اس سے ایک نیا عفریت جنم لے لیتا ہے۔

ہندو اساطیر کے مطابق کالی دیوی نے ان خون کے قطروں کے آگے اپنی زبان پیش کی تاکہ انھیں زمین پر گرنے سے روکا جاسکے، یوں عفریت کا خاتمہ ہوا۔Image result for intolerance in india cartoon
رواداری بھی یہی کردار اداکرتی ہے، وہ مزید خون بہنے اور نئے نئے عفریتوں کو جنم لینے سے روکتی ہے۔
رواداری کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ دنیا میں اختلافات کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ زبانوں، عقائد، ثقافتوں، نظریوں اور صنفوں کے اختلافات باقی رہیں گے۔ ان اختلافات کی بنا پر یا ان اختلافات کو مٹانے کی کوشش کے طور پر جنگیں برپا کرکے دنیا کو جہنم تو بنایا جاسکتا ہے، رہنے کے قابل نہیں۔
مہدی حسن کی  تحریریں, 
Courtesy nakuznazarSujag

No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();