وہ بغداد شہر کی رہنے والی ایک عقلمند لڑکی تھی جس کے والد ایک مشہور زمانہ پیر صاحب کے خاص مرید تھے اور روزانہ شام گھر آتے ہی پیر صاحب کی کرامات ضرور سناتے تھے اس دن تو ایک خاص کرامت ظاہر ہوئی تھی اور آتے ہی اپنی بیٹی کو سنانے لگے کہ آج نماز مغرب کی دوسری رقعت میں عین رکوع کے عالم میں پیر صاحب جماعت کراتے کراتے اچانک شش شش کی آوازیں نکالنے لگے اور پھر رک کر دوبارہ وہیں سے باقی کی نماز مکمل کروائی جماعت کیبعد معتقدین نے شش شش کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ مسجد نبوی کے دروازے کے باہر ایک کتا مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا میں نے دھتکار کے بھگا دیا لوگوں نے جو یہ سنا تو اش
اش کر اٹھے کہ بغداد میں نماز پڑھاتے پیر صاحب کس قدر عالی نظر ہیں کہ مدینہ میں ایک کتے کو دیکھ لیا اور بھگا
دیا
حیرت انگیز واقع کو سنتے ہی لڑکی نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ اگر پیر صاحب اتنے ہی صاحب کرامت و برکت ہیں تو کیوں نہ انکی گھر پہ دعوت کی جائے اور انکی مہمان نوازی کا شرف حاصل کیا جائے مرید خاص کو یہ بات پسند آئی اور اگلے روز پیر صاحب کو دعوت دیکر گھر لے آیا مرید کی بیٹی نے بڑی محنت سے گوشت کی ہانڈی بنائی اور چاول بنائے اب اس ترتیب سے کھانا پلیٹ میں ڈالا کہ پہلے پیر صاحب کی پلیٹ تیار اور اسے گوشت سے بھر دیا اور گوشت کہ اوپر چاولوں کی ایسی تہ لگا دی کہ نیچھے گوشت نظر نہ آتا تھا اور دوسری پلیٹ اپنے باپ کیلئے جسے چاولوں سے بھر دیا اور اوپر گوشت کی تہہ لگا دی کہ چاول کم ہی نظر آتے تھے اور اسی ترتیب سے کھانا انکے سامنے رکھ کر واپس ہو لی پیر صاحب نے جو کھانے کی یہ بانٹ دیکھی تو مرید سے بولے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مہمان کو تو سوکھے چاول چاول کھلاو اور خود گوشت کھاو
لڑکی جو پردے کے پیچھے یہ گفتگو سن رہی تھی فورا سامنے آکر بولی لعنت ہے ایسے پیر پہ جسے پندراں سو میل دور
حیرت انگیز واقع کو سنتے ہی لڑکی نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ اگر پیر صاحب اتنے ہی صاحب کرامت و برکت ہیں تو کیوں نہ انکی گھر پہ دعوت کی جائے اور انکی مہمان نوازی کا شرف حاصل کیا جائے مرید خاص کو یہ بات پسند آئی اور اگلے روز پیر صاحب کو دعوت دیکر گھر لے آیا مرید کی بیٹی نے بڑی محنت سے گوشت کی ہانڈی بنائی اور چاول بنائے اب اس ترتیب سے کھانا پلیٹ میں ڈالا کہ پہلے پیر صاحب کی پلیٹ تیار اور اسے گوشت سے بھر دیا اور گوشت کہ اوپر چاولوں کی ایسی تہ لگا دی کہ نیچھے گوشت نظر نہ آتا تھا اور دوسری پلیٹ اپنے باپ کیلئے جسے چاولوں سے بھر دیا اور اوپر گوشت کی تہہ لگا دی کہ چاول کم ہی نظر آتے تھے اور اسی ترتیب سے کھانا انکے سامنے رکھ کر واپس ہو لی پیر صاحب نے جو کھانے کی یہ بانٹ دیکھی تو مرید سے بولے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مہمان کو تو سوکھے چاول چاول کھلاو اور خود گوشت کھاو
لڑکی جو پردے کے پیچھے یہ گفتگو سن رہی تھی فورا سامنے آکر بولی لعنت ہے ایسے پیر پہ جسے پندراں سو میل دور
کھڑا کتا تو نظر آجاتا ہے سامنے پڑے چاولوں میں چھپی بوٹیاں نظر نہیں آتیں۔۔۔۔
ایک اور لعنت ہے ان لوگوں پہ جنہیں سات سمندر بار حلب اور برما تو نظر آ جاتا ہے اپنی ناک نیچے پستے شیعہ ہزارہ ا
ایک اور لعنت ہے ان لوگوں پہ جنہیں سات سمندر بار حلب اور برما تو نظر آ جاتا ہے اپنی ناک نیچے پستے شیعہ ہزارہ ا
\کیلاش اور ساجد مسیح نظر نہیں آتے۔۔۔ فرخ عباس
Bulldozer-بُل ڈوزر Courtesy
No comments:
Post a Comment
this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment