گولان کی پہاڑیوں کو شام اور اسرائیل خاص اہمیت کیوں دیتے ہیں ؟ - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Thursday, March 28, 2019

گولان کی پہاڑیوں کو شام اور اسرائیل خاص اہمیت کیوں دیتے ہیں ؟

گولان کے علاقے میں قریب 12 سو مربع کلومیٹر کا اعلان بفر زون کہلاتا ہے، جہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات ہے, 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے گولان کے اس پہاڑی علاقے کا زیادہ تر حصہ اپنے قبضے میں کر لیا تھا, بعد ازاں 1981 میں اسے باقاعدہ طور پر اسرائیل میں شامل کر لیا گیا, معاملہ اقوامِ متحدہ میں گیا تو اقوام متحدہ نے قرار داد پاس کی کہ گولان کی پہاڑیاں تاحال شام کا علاقہ ہیں, اور اسرائیل اس پر غاصب اور قابض کی حیثیت سے موجود ہے, یہی وجہ ہے اسرائیل کے اس قبضے کو عالمی برادری نے آج تک تسلیم نہیں کیا.



آخر کیا ہے گولان کی پہاڑیوں میں.... ؟؟؟
گولان کی پہاڑیوں کو شام اور اسرائیل دونوں ملک ہی خاص اہمیت دیتے ہیں, اس کی سب سے اہم وجہ اس کی جغرافیائی اور عسکری حوالے سے زبردست اہمیت ہے, شام کے جنوب مغربی علاقے میں واقع اس پہاڑی سلسلے سے شامی دارالحکومت دمشق واضح طور پر نظر آتا ہے, اور وہاں سے اسے میزائلوں سے نشانہ بنانا بھی چنداں مشکل نہیں ہے, یہی وجہ ہے کہ اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کے بعد سے اسرائیلی فوج یہاں سے شامی فوج اور جنگجوؤں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں, اور انہیں کسی قسم کے حملے کا موقع نہیں دیتی.
دوسری طرف اس مقام سے شمالی اسرائیل کا پورا علاقہ شام کی فوج کی نظر میں رہتا تھا, 1948 سے 1967 تک جب گولان کا یہ پہاڑی سلسلہ شام کے زیرِ انتظام تھا, تو اکثر شامی فوج یہاں سے شمالی اسرائیل پر گولہ باری کر کے اسرائیل کو جانی و مالی نقصان پہنچاتی تھی, اسرائیل اور امریکہ اس علاقے کے لیئے اسی وجہ سے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی صریحاً خلاف ورزی کر کے عالمی برادری کی دشمنی مول لے رہا ہے کہ اس علاقے کا جغرافیائی محل وقوع اسرائیل کو شام کی جانب سے کسی بھی عسکری حملے کے خلاف زبردست تحفظ فراہم کرتا ہے.

دوسری بڑی اور اہم وجہ جو اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں سے دستبردار ہونے سے روکتی ہے, وہ یہ ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کو قرب و جوار کے لیئے پینے کے پانی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے, یہی وہ پہاڑیاں ہیں کہ جن کے چشموں سے بہنے والا پانی دریائے اردن کے ساتھ بحیرہ گلیلی یا جھیل طبریا کو بھرتا ہے, یہ جھیل اس سارے علاقے میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے, یہ سمندر نما جھیل اس وقت خطے کی ستر فیصد آبادی کے پینے کے پانی کی ضروریات پوری کر رہی ہے, جس میں اسرائیل کی کل آبادی کا چالیس فیصد بھی شامل ہے.

آخر کیا وجہ ہے کہ خطے کے کشیدہ حالات کے باوجود ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنے کی چوّل مارنا ضروری سمجھا...؟؟؟
اس کی وجہ بلکل واضح ہے, ہمیں موصولہ رپورٹس کے مطابق شام کے اتحادیوں بشمول روس، ایران،چین، حزب اللہ اور دیگر کی مشترکہ کوششوں سے کرد علاقوں میں موجود آخری داعشی ٹھکانوں پر بھی شامی افواج نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے, امریکہ کے شاطر ترین دماغ سوچ رہے ہیں کہ وہ شام جو کہ ان کی پروردہ داعش جیسی خطر ناک دہشت گرد تنظیم سے نمٹ سکتا ہے, اور جو ماضی قریب میں اسرائیلی میزائل حملوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ جوابی کاروائی بھی کر چکا ہے, تو یقیناً وہ اس پوزیشن میں ہے کہ کسی بھی وقت اپنے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کے تسلط سے آزاد کروانے کے لئے کوئی مؤثر کاروائی کر سکے, اور ان کی یہ سوچ بہت حد تک ٹھیک بھی ہے, دہشت گردی کے خلاف آٹھ سالہ جنگ میں شامی حکومت نہ صرف کامیاب ہوئی ہے، بلکہ شام کی مسلح افواج کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں، جبکہ اسلامی مزاحمتی فورسز نے بھی گولان کی پہاڑیوں کے قریب اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی ہے, شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے حال ہی میں کہا ہے کہ دمشق گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ مضبوط بنانے کیلئے انجام دی خانے والی اسرائیلی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے میں کسی قسم کے تذبذب کا شکار نہیں ہو گا, یہ اسرائیل کے لیئے زبردست وارننگ تھی.

اس اسرائیلی اقدام اور صدر ٹرمپ کے اعلان کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی ہے, سعودی عرب نے اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے, اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے امن کے ساتھ کھلواڑ قرار دیا ہے, شام نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کے متعلق امریکی صدر کے فیصلہ شام کی خودمختاری پرحملہ ہے, جبکہ روس نے کہا ہے کہ امریکی فیصلے سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر شروع ہوجائے گی, اکثر یورپی ممالک نے بھی امریکی اقدام کو غلط کہا ہے, میرے خیال میں صدر ٹرمپ کی اس بے وقوفی کے دُور رس نتائج برآمد ہوں گے, یہ اقدام عرب ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے, 1967 کی طرز کی ایک نئی جنگ کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا, کیونکہ تاریخ سے شُغف رکھنے والوں کو بخوبی یاد ہوگا کہ 1974 میں شام اور اسرائیل کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا تھا, جو آج تک دونوں ممالک کو براہِ راست تصادم سے روکے ہوئے تھا, اس اسرائیلی اقدام کے ساتھ ہی وہ امن معاہدہ غیر مؤثر ہو گیا ہے, یعنی اسرائیل کا بُرا وقت قریب آ گیا ہے.

مارخور

No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();