شہیدِ سرزمین سندھ راجہ داہر کی زندگی کی حقائق قسط اول - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Sunday, July 8, 2018

شہیدِ سرزمین سندھ راجہ داہر کی زندگی کی حقائق قسط اول

سندھ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے، امری، کوٹ دیجی، موہنجو داڑو اور چند نسبتا کم جانے ےغیر معروف کھنڈرات اس علاقے کے عظیم اور شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کا عمومی پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ لوگ کپاس اگاتے اور سوتی کپڑے پہنتے تھے۔ کپاس کے متعلق یونانی مورخ ہیروڈوٹس کچھ یوں لکھتا ہے کہ وادی سندھ میں ایک عجیب و غریب پودا ہوتا ہے جس میں چاندی کے سفید پھول اگتے ہیں۔

Image may contain: one or more people and people standing
وادی سندھ کے لوگ اپنی ہم عصر سومیری، مصری اور دیگر تہذیبوں کے بر عکس انتہائی امن پسند اور صلح جو لوگ تھے۔۔انہوں نے کسی نزدیکی ملک پر حملہ کر کے لوٹ مار یا قتل عام نہیں کیا، لیکن اس کے برعکس انہیں بہت سے غیر ملکی لٹیروں کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جن میں ایرانی، یونانی اور عرب سر فہرست ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سرزمین عرب دنیا کے سب سے زیادہ گرم اور خشک ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ سوائے کچھ قابل کاشت اور زرخیز علاقوں (نخلستان) کے علاوہ اس ملک کے بیشتر حصہ ایک جھلسا دینے والے صحرا اور دشت پر مشتمل ہے۔ یہاں پر کوئی ایک بھی قابل ذکر دریا نہیں ہے جس کے کنارے دنیا کی کوئی تہذیب جنم لیتی۔ نبیؑ کریم کے وقتوں میں اس علاقے کا بیشتر حصہ خانہ بدوش بدووؑں کی اماجگاہ تھا۔ جو پانی کے چشموں اور چراگاہوں کے حصول کیلئے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے۔ دوسرے قبیلوں پر حملہ کر کے ان کا مال و دولت، مویشی، عورتیں اٹھا لینا عام سی بات تھی، انہی جنگوں میں دوسرے قبیلے کے مردوں کو قیدی کرنے کی وجہ سے غلامی اپنے عروج پر تھی، اس علاقے کو اگر ایک صحرائی سمندر کہیں تو عرب بدو اس صحرائی سمندر کے ” بحری قزاق” تھے
یہی صحرائی لٹیرے بعد میں اسلام قبول کرتے ہیں اور لوٹ مار کی بدوی روایت مذہب اسلام کا حصہ بنتی ہے جو قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کے لوٹنے سے شروع ہوتی ہے اور ان قافلوں کے لٹنے کی وجہ سے قریش مکہ اور مدینہ کے مسلمان مہاجروں کے درمیان غزوہ بدر کا باعث بنتی ہے، غزوہ بدر در حقیقت قریش مکہ کی مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف ایک دفاعی جنگ تھی۔ مسلمان طاقت پکڑنے کے بعد مدینہ کے یہودیوں کو بے دخل کرنے، قتل عام کرنے، ان کا مال و دولت لوٹنے، ان کی عورتوں کو باندیاں بنانے کے بعد خیبر سمیت دیگر نزدیکی بستیوں کا رخ کرتے ہیں۔ صحرائی بدووؑں کی یہ لوٹ مار صرف عرب تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ ارد گرد کی عظیم تہذیبیں بھی اس کا شکار بنتی ہیں۔
” ساتویں صدی میں جب سندھ اپنی شان و شوکت کے عروج پر تھا، عرب جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق تھا۔ عرب مجموعی طور پر نہ صرف جاہل ترین بلکہ بد ترین لوگ تھے”
( جی ایم سیدسندھو جی ساجانھ)
” عرب ایک وحشی قوم ہے، جن میں وحشت کے علت و اسباب مستحکم ہیں، جو ان کی گھٹی میں پڑے ہیں اور ان کی طبعیت ثانیہ بن چکے ہیں اور انہیں بہت پیارے ہیں کیوں کہ انہیں آزادی میسر ہے کہ ان کی گردن میں کسی حکومت کا پٹہ نہیں۔ اور یہ عادتیں معاشرہ کے خلاف اور معاشرتی زندگی کے متضاد ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی عادت ہے کہ یہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتے، ہر طرف لوٹ مار کرتے ہیں جو امن و سلامتی کے موجب تمدن کے خلاف ہے، مثال کے طور پر انہیں پتھر اس لیئے چاہییئں کہ اس پر دیگیں رکھ کر پکائیں، اسے ضرورت کو پورا کرنے کیلئے وہ عمارت ڈھا دیتے ہیں، مکان منہدم کر دیتے ہیں اور اپنی ضرورت پوری کرنے کیلیئے پتھر اکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔ اس طرح خیمے گاڑنے کیلئے انہیں لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیئے جہاں سے موقع پاتے ہیں، چھتیں اکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔ لہذا ان کا وجود تعمیر کے منافی ہے، اور تخریب پسند ہے۔ اور تعمیر ہی معاشرے اور آبادی کی بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ لوٹ مار ان کا زریعہ معاش ہے اور ان کا رزق ان کے نیزوں کے نیچے ہے۔ اور لوٹنے کے سلسلے میں انکے ہاں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ کہ اس پر آ کر رک جائیں، بلکہ جب بھی ان کی نگاہ کسی کے مال، برتنے کی چیز یا کسی سامان پر پڑتی ہے، اسے لوٹ لیتے ہیں۔ جب ان کے غلبہ و اقتدار کا مدار لوٹ کھسوٹ پر ہے، تو اگر ان کے ہاتھوں میں حکومت آ جائے، تو لوگوں کا مال اور جانیں ان سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ لا محالہ آبادی اجڑے گی اور معاشرہ خراب ہو گا۔ نیز یہ صنعت کاروں سے جبریہ کام کراتے ہیں اور ان کی نگاہ میں ان کے کام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ اس لیئے صنعت کاروں کو ان کی محنت کا کافی صلہ نہیں ملتا، اور صنعت و حرفت ہی معاش کا اصلی ذریعہ ہے۔ پس جب لوگوں کے کام اور محنت کی بے قدری ہوتی ہے، اور صنعت و حرفت والوں کو ناحق بیگار کرنی پڑتی ہے، تو اہل حرفہ کی توجہ اس طرف سے اٹھ جاتی ہے اور ہاتھ کام سے رک جاتے ہیں، امن و سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور آبادی اجڑنے لگتی ہے۔۔(مقدمہ ابن خلدون )
جاری ھے ۔۔۔۔۔
تحریر
نا معلوم

COURTESY South Asia Free Thinkers forum

No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();