افلاطون کہتا ہے تصور کیا جائے کے کچھ لوگوں کو ایک ایسے غار میں پیدائش سے قید کر دیا گیا جہاں سورج کی روشنی نہیں آتی ان کے ہاتھ پاوں ایسے باندھے گئے ہیں کے وہ صرف سامنے والی دیوار کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان قیدیوں کے پیچھے ایک بڑی آگ جل رہی ہے آگ اور قیدیوں کے درمیان ایک راستہ ہے جس پر سے لوگ اپنا سامان اٹھائے گزرتے ہیں۔
جب لوگ اس راستے سے گزرتے ہیں تو قیدیوں کے سامنے والی دیوار پر سائے بنتے ہیں اور کیونکہ ان قیدیوں نے کبھی کچھ اور نہیں دیکھا وہ سائے کو ہی حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ ایک کھیل شروع ہو جاتا ہے کے اگلا سایہ کون سا ہوگا اور جو بھی قیدی درست اندازہ
لگاتا ہے وہ سب سے عقلمند کہلاتا ہے۔
ایک قیدی ایک روز اپنی زنجیر کو توڑ کر بھاگ نکلتا ہے اور باہر کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ باہر نکل کر بھی وہ سائے دیکھنے کی کو شش کرتا ہے پر اس دنیا کی خوبصورتی رنگ اور روشنی اس کو حیران کردیتی ہے۔ جب وہ ان سب باتوں کا عادی ہونے لگتا ہے تو اسے سمجھ آتا ہے کے سائے کو حقیقت مان لینا اس کی غلطی تھی وہ اس نئی دنیا، روشنی اور زندگی کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کے
سائے کا کھیل جو وہ کھیلا کرتا تھا بیکار تھا۔
وہ قیدی جلدی جلدی واپس غار میں آتا ہے تاکہ اپنے ساتھیوں کو آزاد کروا کر واپس لے جا سکے۔ پر پہلے تو وہ اس کی باتوں کو سن کر یقین نہیں کرتے اس کا مزاق بناتے ہیں اور کہتے ہیں کے سفر نے اس کو پاگل کردیا ہے پھر یہ مزاق غصے میں بدل جاتا ہے اور آخر کار وہ اتنے غضب ناک ہو جاتے ہیں کے ان کو آزاد کرنے کی کوشش کرنے والے
کو قتل کی دھمکی دے ڈالتے ہیں۔
افلاطون کی یہ کہانی کئی پیغامات دیتی ہے پر مجھے اس کو پڑھتے فیسبک پر موجود لوگ یاد آ رہے تھے جن کا رویہ اکثر غار میں موجود ان لوگوں کی طرح ہوتا ہے جو اپنے اندھیرے غار کو منزل اور سائے کو حقیقت سمجھ کر اتنے تنگ نظر ہو چکے ہوتے ہیں کے آزادی کی طرف بلانے والے کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں۔
پر غار سے باہر نہیں آنا چاہتے تو نا آو پر جو روشنی کی داستان سنا رہا ہے اس کو سن تو لو کیا پتا وہ داستان سائے دیکھنے سے بہتر ہو۔
No comments:
Post a Comment
this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment