شفیقہ اسرار
"سارا سال میرا کٹ جاتا ہے گمنامی میں.
بس "یکم مئی" کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں"۔
یکم مئی ہر سال شیکاگو کے شھیدوں کے نام سے منسوب کر کے مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دن سے خود مزدور طبقہ لاعلم ہیں۔ یکم مئی کو بھی وہ صبح مزدوری کے لیے گھر سے نکل جاتا ہے یہ سوچ کر کہ اگر وہ چھٹی منائے گا تو کہی اس کے بچے بھوکے نہ سو جائے۔ پچھلے کئی سالوں سے منایا جانے والا یہ دن نا تو ان کو معاشی حقوق دلا سکا نا ہی تحفظ فراہم کر سکا۔ آج کے دن جہاں پوری دنیا میں مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر چھٹی ہوتی ہے وہاں وہی مزدور مزدوری کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور مزدوروں کے نام پر کی جانے والی تقریریں اور منعقد ہونے والے پروگرام بھی سیاست برائے سیاست ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
" پیٹ بھر دیتا ہے حاکم میرا تقریروں سے۔
اس کی اس طفل تسلی پہ تو رنجور ہوں میں"۔
ہم ہر سال اس دن کو مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے مناتے ہیں اور اس کے باوجود مزدوروں کی غربت اور شکستہ حالی شدت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔
یوم مزدور کے دن بڑے افسروں کو چھٹی دے کے یا لمبی لمبی تقاریر کر کے یا پھر سوشل میڈیا پر بڑی بڑی باتیں کرنے کے بجائے اگر مزدوروں کے حقوق کے جو وعدے کیے جاتے ہیں ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے اور ہر دن ان کو معقول مزدوری فرہم کی جائے اور اس دن مناسبت سے ان کو کو ڈبل مزدوری دی جائے نہ صرف یوم مزدور منانے کا مقصد پورا ہو سکتا ہے بلکہ
محنت کش طبقہ احساس کمتری سے نکل کر وطن عزیز کی ترقی میں نسبت کردار ادا کرسکتا ہے۔
خون مزدور کا ملتا جو نا تعمیروں میں
نا حویلی نہ محل نہ کوئی گھر ہوتا۔
اس شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئ نہیں۔
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئ نہیں۔
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہیں
زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے۔
KEEP IT UP
ReplyDelete