جلیلہ حیدر: کوئٹہ میں اتنے دنبے ذبح نہیں ہوئے جتنے ہزارہ قتل ہوئے - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Monday, April 30, 2018

جلیلہ حیدر: کوئٹہ میں اتنے دنبے ذبح نہیں ہوئے جتنے ہزارہ قتل ہوئے


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں رواں ماہ کے دوران اچانک تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور اب تک ایسے واقعات میں نصف درجن سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی سیاسی و سماجی کارکن اور وکیل جلیلہ حیدر نے ان ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کوئٹہ آ کر بذاتِ خود حالات کا جائزہ لیں تاکہ انھیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو سکے۔


بی بی سی اردو کے محمد کاظم سے بات کرتے ہوئے جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کہیں شنوائی نہ ہونے کے بعد کیا۔
’ہم نے ہر فورم استعمال کیا، ہر جگہ گئے۔ 100 جنازوں کے ساتھ بیٹھے اسی کوئٹہ شہر میں فروری کی ٹھنڈ میں۔ کوئی شنوائی نہیں ہے ہماری کیونکہ سکیورٹی ناکام ہو چکی ہے۔‘
ہزارہ خواتین کا احتجاج
ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کی ہلاکتیں رکوانے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لیتا۔ ’ہمارے نام پر بجٹ آتا ہے، ہماری لاشوں سے تو فائدہ ہوتا ہے۔ جنگ فائدہ مند کاروبار ہے۔ کوئی چاہتا ہی نہیں اسے ختم کریں۔ جب بھی بجٹ آنا ہوتا ہے، الیکشن آنے ہوتے ہیں، بین الاقوامی سیاست ہوتی ہے، کولیشن سپورٹ فنڈ آنا ہوتا ہے تو ہم بچارے قربانی کے بکرے ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’کوئٹہ میں شاید اتنے دنبے ذبح نہیں ہوئے جتنے ہزارہ قتل ہوئے ہیں۔ میں اپنے بھائیوں کی زندگی کے لئے یہاں بیٹھی ہوں اور تا دم مرگ بیٹھی ہوں۔‘

انھوں نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک عام شہری کی طرح کوئٹہ کا دورہ کریں تو انھیں لوگوں کی مشکلات کا احساس ہو گا۔
’قمر جاوید باجوہ صاحب وردی کے بغیر عام آدمی بن کر ایک بار کوئٹہ آئیں۔ سوچیں وہ کوئٹہ والے ہیں، سوچیں وہ پشتون ہیں، سوچیں وہ بلوچ ہیں۔ میں ان کو اس شہر کی ہر چیک پوسٹ، ہر محلے، ہر گلی کوچے میں رکشے پر لے جاؤں گی اور دکھاؤں گی یہاں کے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔‘
جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف تین ہزار ہزارہ بیواؤں سے ملیں اور ان کے سوالوں کا جواب دیں۔
’20 سال سے جو ہم قتل ہو رہے ہیں اس کے محرکات کیا ہیں؟ اس کے پیچھے کون ہے؟ ہمیں کیوں قتل کیا جارہا ہے؟ نیشنل ایکشن پلان کہاں چلا گیا؟ نیکٹا کہاں کھڑی ہے؟ کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ کا کیا ہوا؟
’یہ سب میں باجوہ صاحب سے پوچھنا چاہتی ہوں۔ وہ بھی بچوں کے باپ ہیں، اگر وہ ایک دفعہ ان بچوں کی چیخیں سنیں گے اور اگر ان کا دل پتھر کا نہیں ہے، انسان کا دل ہے تو میں یقین سے کہتی ہوں کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر یہاں آئیں گے اور ہماری ماؤں سے ملیں گے۔‘
خیال رہے کہ ہزارہ قبیلے کے افراد پر حملوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔
رواں سال نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سنہ 2001 سے 2017 تک 16 سال کے دوران ایسے حملوں میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے 525 افراد ہلاک اور سات سو سے زائد زخمی ہوئے۔
Courtesy BBC Urdu

No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();