چترال: معاشرے میں خواتین کے لئے آزادی اور بااختاری کا تصور - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Thursday, March 22, 2018

چترال: معاشرے میں خواتین کے لئے آزادی اور بااختاری کا تصور

شفیقہ اسرار



عورت جسے معاشرہ ماں، بہن، بیٹی،بھو اور نہ جانے کتنے اور مقدس القاب سے یاد کرتا ہے اور اسے جائز حقوق دینے کا بھی دعوی کرتا 

ہے،دوسری طرف یہی معاشرہ اسی عورت کو ہمیشہ کمزور اور دوسروں پر انحصار کرنے میں بھی بھرپور کردار ادا کرتا ہے_
چترال جسے اس کے مخصوص روایات اور دلکش نظاروں کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور جنت سے تشبیہہ بھی دی جاتی ہے_ 



جہاں کے لوگ مہمان نوازی اور خوش اخلاقی کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور و مقبول ہیں_ جہاں کسی غریب کو اپنا پیٹ پالنے کے لیے بھیک کا سہارا نہیں لینا پڑتا، وہ چترال جسے دنیا میں جنت سے کم تصور نہیں کیا جاتا کیا وہاں کے بیٹیوں کو ان کے معاشرتی حقوق ملتے ہیں؟ کیا وہاں کی بیٹی اتنی آزاد ہے کہ وہ کسی بھی شعبے میں بلا کسی مداخلت کے آگے بڑھ سکتی ہے؟ یہ سوال بظاہر بہت آسان اور معمولی نظر آتے ہیں لیکن ان پر غور کیا جائے تو ان کا جواب تقریباً نفی میں آتا ہے_جہاں دنیا چاند پر قدم رکھ چکی ہے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی بھی یہ تحقیق کرنے میں مشغول ہے کہ کونسی چترالی ماں اور بہن نے کس قسم کا لباس زیب تن کیا ہے، گویا وہ ثقافت کو پروان چڑھا رہی ہے یا نہیں؟ 


برعکس یہ دیکھنے کے وہ کتنا اچھا کام کر رہی ہے وہ کتنی ہنرمند ہے دنیا میں ہمارا نام روشن کررہی ہے کہ نہیں۔ 
اگر کوئی بیٹا گانا گاتا ہے تو ہر کوئی چھوٹے سے لے کر بڑے تک اس کی تعریف کرنے میں لگ جاتے ہیں یہی کام اگر بیٹی کرے تو وہ تعریفیں کہاں جاتی ہیں؟ اگر بیٹی کے کپڑوں سے ہماری ثقافت خراب ہو رہی ہے تو کیا بیٹوں کے کرتوتوں سے ہمارا معاشرہ مثبت طریقے سے پروان چڑھ رہا ہے؟ 


اگر بیٹی کے آگے بڑھ کر اپنے خواب پورے کرنے سے کلچر خراب ہو رہا ہے تو کیا بیٹوں کے آوارہ گردیوں سے نہیں ہو رہا؟ یہ ایسے سوالات ہے جن کا جواب شاید ہی کوئی دے سکے ، نہیں معلوم کتنی لڑکیاں اس ڈر سے خواب دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں کہ کہیں میرا معاشرہ اور کلچر اس چیز کو قبول نہیں کرےگا
_ ایک معاشرہ جہاں ایک عورت کی موجودگی کو گناہ سمجھا جاۓ اور عورت کو گناہ کا آلہ تسلیم کیا جاۓ اور مرد کو ہمیشہ ایمیونیٹی حاصل ہو تو ایسے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کیا جینا ہی مشکل اور نا ممکن ہو کے رہ جاتا ہے_ ایسی مشکل وقت میں اگر ہر ماں ہر باپ اور بھائی اپنی بہن بیٹی کو اتنا خودمختار کرے کہ وہ اپنی ہر بات ان سے بلا جھجک شیر کرسکے تو نہ کسی چترالی بیٹی کو کوئی آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے نہ ہی اس کو اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ کر خودکشی کی راہ اپنانی پڑے گی، کیونکہ معاشرہ لڑکیوں کی تعلیم اور ان خودمختار ہونے سے نہیں بگڑتا اگر بگڑتا ہے تو صرف جہالت اور غلط تربیت کی وجہ سے۔ "سوچوں کےے بدلنے سے نکلتا ہے نیا دن 
سورج کے چمکنے کو سویرہ نہیں کہتے"


شفیقہ اسرار  نمل  یونیورسٹی اسلام آباد  کی طالبہ ہے   اس  کا تعلق چترال ہے وہ ایک صحافی اور سماجی کارکن ہے   

No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();