مشہور برطانوی فلسفی جان لاک نے انسانی تجربات کو علم و ادراک کا سر چشمہ قرار دیا ہے۔ اپنی مشہورکتاب (An Essay Concerning Human Understanding) میں انھوں نے انسانی علم کے بنیادوں پر کافی مفصل بحث کی ہے۔ لاک کے مطابق انسانی دماغ پیدائش کے وقت ایک ایسے صاف سلیٹ (Tabula Rasa) کی مانند ہوتی ہے جس پر کچھ بھی نہ لکھا گیا ہو اور جوں جوں انسان مختلف تجربات کے عمل سے گزرتی ہے انسان کے علم میں اضافہ
ہوتا چلا جاتا ہے۔
اگرجان لاک کے نظریے کو صحیح تسلیم کیا جائے تو ہرانسان کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے کیونکہ ایک انسان کے تجربات کسی اور انسان کے تجربات سے مختلف ہوتی ہے۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ کس کے سوچنے کا انداز سب سے اچھا ہے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کسی بھی موضوع کے بارے میں دو انسانوں کی رائے سو فیصد یکساں نہیں ہو سکتی۔ دو انسانوں کے سوچ میں جتنی بھی زیادہ مماثلت ہو لیکن یہ ہر گز ممکن نہیں کہ ان دونوں کے سوچنے سمجھنے کے انداز بالکل ایک جیسے ہو کیونکہ ان کے تجربات ایک جیسے نہیں ہیں اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
ترقی پسند معاشروں میں اختلافِ رائے ایک خوش آئند بات سمجھی جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتی ہے کہ ان معاشروں میں ہر فرد کو سوچنے کی آزادی ہوتی ہے اور ہر فرد کے سوچ کی اہمیت ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہی ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو نافرمان اور گستاخ کہا جاتا ہے کیونکہ ہر کوئی اپنے تجربات پہ مبنی علم کو ہی صحیح علم قرار دیتا ہے۔
میرے خیال میں معاشرہ کے ہرفرد کو اظہارِ رائے کرنے کی آزادی ہونی چاہیےلیکن ساتھ ہی اختلافِ رائے رکھنے والوں کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ یہ ایک صحت مند معاشرے کی نشانی ہے۔ اس بلاگ کو بنانے کامقصد بھی یہی ہے کہ ہم مختلف موضوعات پہ اپنے رائے کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کے رائے کو بھی برداشت کرنا سیکھیں اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں۔
No comments:
Post a Comment
this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment