کیا مغربی معاشروں میں بچے اپنے والدین کو اولڈز ہوم میں پھینک آتے ہیں - آزادی اظہار رائے

Breaking

آزادی اظہار رائے

اس بلاگ کا مقصد خبروں اور سماجی رجحانات کو شائع ۔کرنا ہے اور مقامی و متنوع ثقافتوں کو فروغ دینا، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، ترقی پسند خیالات کو فروغ دینا ، اور رائے اظہار کرنے کی آزادی کو فروغ دینا ہے

Tuesday, June 19, 2018

کیا مغربی معاشروں میں بچے اپنے والدین کو اولڈز ہوم میں پھینک آتے ہیں

تحریر: منقول  

ساؤتھ ایشین فری تھنکرز‎'


Image may contain: 1 person, smiling, eating, sitting, table, food and indoor

" مغرب اجتماعی طور پر خاندانی نظام کو گڈ باۓ کہۂ چکا ہے مگر مشرق میں آج بھی یہ نظام قائم ہے. والدین کا عزت و احترام موجود ہے کوئی ان کو اولڈ ہومز میں پھینک کر اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا"۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مشرک فیملی کا تصور کسی نہ کسی طور پر پاکستان میں گھسٹ رہا ہے، کہیں خاندان کے کسی خوش قسمت بوڑھے کو سرپرست کی حیثیت حاصل ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے بہت کچھ بدل رہا ہے اور بدل چکا ہے۔ بہر حال پاکستانی اور مغربی معاشروں کا موازنہ اس پوسٹ کو موضوع نہیں ہے، لہذا پاکستانی معاشرے پر کچھ نہیں کہوں گا، وہ پاکستان میں رہنے والے بہتر جانتے ہیں۔

والدین کو اولڈز ہوم میں پھینک آنے کا دعویٰ ہی ایک دم سے ثابت کر دیتا ہے کہ موصوف مغربی معاشروں کے متعلق کچھ نہیں جانتے یا اسے پاکستانی عینک سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک خاندان کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے اور وہ ہے مشترک خاندان۔ لیکن مغرب میں مشترک خاندان کا کوئی تصور نہیں ہے جہاں سب اکٹھے رہتے ہوں اور جب کوئی بوڑھا ہو جائے تو اس کی اولاد اسے گھر سے باہر کر دیتی ہے۔ ایسی صورت ان معاشروں میں پیش آتی ہے جہاں والدین اور بچے ساتھ رہتے ہوں، لہذا مغرب میں اولاد کا اپنے والدین کو اولڈز ہوم میں پھینک آنے کا دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔

مغربی معاشرے کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اس بات کو سمجھا جائے کہ مغربی معاشرے میں بچے والدین کو ملکیت نہیں ہوتے بلکہ اس ملک کے شہری ہوتے ہیں۔ اور ریاست ہر بچے کیلئے ایک معقول رقم تب تک دیتی ہے جب تک بچہ اٹھارہ سال کا نہ ہو جائے۔ والدین کو بچوں پر زیادتی کرنے یا مارپیٹ کا حق حاصل نہیں ہے۔ پکڑے جانے کی صورت میں ریاست بچوں کو اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔

ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک نہ صرف بچوں کی ضروریات کو حتیٰ المقدور پورا کریں بلکہ اسے ایک خود مختار انسان اور اچھا شہری بننے میں مدد دیں۔ اٹھارہ سال کے بعد بچہ والدین کی ذمہ داری نہیں رہتا، البتہ والدین کی محبت کی وجہ سے وہ جب تک وہاں رہنا چاہے رہ سکتا ہے۔ لیکن اکثر اوقات بچے اٹھارہ سال کی عمر میں گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا گھر لیتے ہیں۔ خود ہی کھانا بناتے ہیں۔ پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں، ریاست سے تعلیم کیلئے قرضہ بھی لے سکتے ہیں جس کیلئے کم سود اور آسان شرائط ہوتی ہیں، اور بسا اوقات آپ اس قرض کی ادائیگی تب شروع کرتے ہیں جب کوئی معقول ملازمت مل چکی ہوتی ہے۔

بچے کا خودمختاری کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی ہمارے معاشرے جیسا کچھ نہیں ہے کہ آپ والدین پر بوجھ بنے رہیں۔ مغرب میں اولاد کیلئے "کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا" جیسا کوئی محاورہ نہیں ہے۔ شائد مجھے ایک واقعے کا ذکر ضرور کرنا چاہیئے، میرے پڑوسی کے دو بچے تھے، بڑی بیٹی اور چھوٹا بیٹا۔ بیٹی کی عمر انیس سال ہو چکی تھی اور ایک دن پتہ چلا کہ وہ ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ایک فلیٹ میں کسی دوست کے ساتھ منتقل ہو گئی ہے۔ میں جو دیسی سوچ کا مارا تھا، میں نے سوچا کہ اس غم کی گھڑی میں پڑوسی کا حوصلہ بڑھاؤں۔ میں نے صاف بات کرنے کی بجائے بالواسطہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا، کیا عجیب زندگی ہے کہ آپ ایک گھونسلہ بناتے ہیں۔ انڈے دیتے ہیں، بچے نکلتے ہیں، آپ کا زندگی کا محور ان بچوں کیلئے چوگا اکٹھا کرنا اور دوسری آفات سے ان کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ اور ایک دن وہ بچے اس انداز میں اڑ جاتے ہیں کہ کبھی واپس نہیں آتے۔ اس گورے نے محسوس کر لیا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں اور مسکراتے ہوئے اپنی بیٹی کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اس کو کافی چوگا دیا جا چکا ہے، اب وہ اپنا گھونسلہ بنائے گی، اور اپنے بچوں کو چوگا دے گی۔

ایک بار ایک مقامی اخبار میں ایک گورے کے متعلق پڑھا تھا جو تینتیس سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ نہ کوئی کام کرتا تھا اور نہ کوئی اپنے لیے گھر بنایا، ماں کی پنشن پر زندگی گزارتا تھا۔ اور اس پر کافی بحث ہوئی کہ یہ لڑکا کیوں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا اور ابھی تک اپنی ماں سے چمٹا ہوا ہے۔

بچے گھر چھوڑنے کے اپنے اپنے ٹھکانے بنا لیتے ہیں، والدین کو وزٹ کرتے ہیں، مدد کی صورت میں والدین سے مدد بھی لیتے ہیں۔ اب والدین اکیلے ہیں۔ اور اس گھر میں کوئی ایسا بچا جو انہیں اولڈز ہوم میں پھینک آئے۔ 
اب والدین کی تمام ذمہ داریاں ختم ہو چکی ہیں اور وہ زندگی کے مزے لیتے ہیں۔ اکٹھا کھانا بناتے ہیں، گھر کی صفائی وغیرہ، چھٹیوں میں اپنے ملک کے دوسرے شہروں یا دوسرے ممالک میں چارٹرڈ فلائٹس لے کر چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں۔ جب ایک خاص عمر ہو جاتی ہے یعنی ساٹھ اور ستر کے درمیان تو پنشن ہو جاتی ہے، یعنی آپ اپنے بچوں یا کسی اور کے دست نگر نہیں ہوتے۔ اور سوائے چند بدقسمت لوگوں کے جنہیں کوئی بیماری نہ ہو، ہر کوئی اچھی خوراک، اچھے علاج معالجے، کسی نہ کسی کی کوئی ورزش (جس میں باہر پارک یا کسی اور جگہ گھومنا سیر کرنا شامل ہے) کی وجہ سے تندرست ہوتا ہے۔ یہ وقت انتہائی مزے کا ہوتا ہے۔

جب یہ جوڑے بوڑھے ہو جاتے ہیں، تو تب تک اپنے گھر رہتے ہیں جب تک جسم ساتھ دیتا ہے۔ جب یوں لگے کہ اب خود سے کام نہیں کر سکتے، گھر کی صفائی، کھانا بنا مشکل لگنا شروع ہو جائے تو آپ اپنی مرضی سے اولڈز ہوم جاتے ہیں، آپ کو اپنی اولاد وہاں پھینک کر نہیں آتی۔ البتہ آپ کے بچے وہاں منتقل ہونے میں مدد کرتے ہیں۔

چند ایک اولڈز ہوم کی تصاویر اپلوڈ کر رہا ہوں۔ جس سے پتہ چل سکے کہ اولڈز ہوم کی زندگی کے شب و روز کیسے ہوتے ہیں۔ وہاں آپ کو پکا پکایا کھانا ملتا ہے، 


جو آپ کو میز پر یوں پیش کیا جاتا ہے جیسے کوئی ہوٹل ہو۔ کرسمس وغیرہ پر مخصوس قسم کی تقریبات ہوتی ہیں، تحفے تحائف کے علاوہ کرسمس کے مخصوص کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ آپ کی شب و روز دیکھ بھال ہوتی ہے۔ وہاں پر چوبیس گھنٹے ڈاکٹر موجود ہوتا ہے، 


جو آپ کی صحت پر نظر رکھتا ہے




۔ ٹی وی روم ہے جہاں آپ نہ صرف ٹی وی دیکھتے ہیں، بلکہ دوسروں سے بیٹھ کر گپیں بھی ہانکتے ہیں۔ ہفتے میں دو تین بار اولڈز ہوم آپ کو مختلف جگہوں پر سیر کرنے کیلئے گاڑیوں میں لے کر جاتے ہیں۔

اور ہاں آپ کے بچے آپ کو پاس کیوں نہیں رکھتے؟؟
مغربی معاشروں میں ہر مرد و عورت کام کرتا ہے،

Image may contain: one or more people, people sitting, table and indoor
 ان معاشروں میں ملک کی آبادی کے نصف کو اپاہج بنا کر گھر نہیں بٹھایا جاتا۔ وہاں کسی عورت کو اس لیے بیاہ کر نہیں لایا جاتا کہ وہ ایک نوکرانی کی طرح آپ کے ماں باپ کی خدمت کرنے کے باوجود ساس کی کڑوی کسیلی سنے، نندوں کے طعنے سنے۔مغربی عورت گھر اور ملک کیلئے خوشحالی میں برابر کا حصہ ڈالتی ہے اور اسی وجہ سے وہ ممالک معاشی طور پر اس قدر خوشحال ہیں کہ ارض پاک سے تعلق رکھنے والا ہر امیر و غریب وہاں منتقل ہونا چاہتا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے اس قدر بہتر ہوتے، جیسے ہم سمجھتے ہیں یا دعوے کرتے ہیں تو لاکھوں کی تعداد میں اس وقت پاکستانی غیر ممالک میں مقیم نہ ہوتے۔ یہ ان بدکردار، اخلاقی اقدار سے عاری معاشروں کا ہی کمال ہے کہ اگر آج کسی مغربی ملک کے پھاٹک کھول دیئے جائیں تو ہمارے ملک میں سوائے اپاہج اور بہت ہی بوڑھے لوگوں کے علاوہ ایک بندہ بھی نظر نہ آئے۔

تصاویر میں کرسمس کے مخصوص کھانے کی بھی تصویر ہے، اور ایک تصویر میں ایک موسیقارہ کو بلایا گیا ہے جہاں وہ ان سینئر سیٹیزن کیلئے پیانو بجا رہی ہے۔ 

یا د رکھیں کہ مغربی ممالک میں کسی کو بوڑھا کہنا بدتمیزی گردانی جاتی ہے، ان لوگوں کو سینئر سیٹیزن کہا جاتا ہے-


تحریر: منقول  

ساؤتھ ایشین فری تھنکرز‎'

Courtesy South Asia Freethinkers Forum


No comments:

Post a Comment

this blog uses premium CommentLuv
Notify me of follow-up comments?”+”Submit the ... “blog” “submit the word you see below:;Enter YourName@YourKeywords"
;if you have a website, link to it here
; ;post a new comment

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();